حسین حسین حسین حسین۔۔۔۔۔۔۔۔ سلام ہو آپ پر اے آدمؑ کے وارث سلام ہو آپ پر اے نوحؑ و ابراہیمؑ و موسٰی و عیسٰیؑ کے وارث سلام ہو آپ پر اے محمدﷺ و علیؑ و زھرا سلام للا علیہ کے وارث سلام اے غریبِ زھرا، سلام میرے حسین تیری پیاس کو سلام میرا کے تیری پیاس سے سیراب ہے یہ دینِ خدا گواہی دیتا ہے کعبہ اذان اور سجدہ حسین وارث ِآدم ہے وارثِ عیسٰی کیا نبی اور ولی خد محمد سا نبی تیرے روضے پہ تجھے کرتا ہے سلام سلام سلام سلام اے غریبِ زھرا حسین قید نہیں ہے حسین سب کا ہے حسین عالمِ انسانیت کا ورثا ہے عجب امیر ہے جنت کو چھوڑ کر اپنی حسین آج بھی ٹوٹے دلوں میں رہتا ہے حسین درد میں جینا سکھا دیا تونے حسین پیاس کو پانی بنا دیا تونے غریب بھی جہاں جاکر امیر لگتا ہے حسین شہر ہی ایسا بنادیا تو نے عجیب شان سے وعدہ نبھایا نانا کا خدا کی راہ میں تونے لُٹا دیا کنبہ جوان بیٹےکے لاشے پہ شکر کا سجدہ کوئی رسول بھی ہوتا حواس کھودیتا میرے غریب حسین میرے شہید حسین السلامُ علیکَ یا قتیل العبرات بوقت عصر گِرے شاہ جلتی ریتی پر کہیں سے لگتا تھا نیزا کہیں سے تیر و تبر خدا کسی کو قیامت نہ یہ دکھائے کبھی بہن کے سامنے بھائی پہ چل گیا خنجر السلامُ علیکَ یا قتیل العبرات ڈھلا جو عصر کا سورج عجیب شام ہوئی پَدر کے لاشہ بے سر پہ آئی اِک بچی ہٹا کے لاش سے پتھر کہا یہ روتے ہوئے اُٹھو اُٹھو ، میرے بابا اُجڑ گئی بیٹی اُسی نشیب سے نیزے پہ آرہے ہیں حسین سِنا کی نوک سے قرآن سُنا رہے ہیں حسین یہ بات سچ ہے تکلمؔ خدا کی مرضی سے خدا کی ساری خدائی چلا رہے ہیں حسین