نیزے پر۔۔۔۔

یا حُسین مولا حسین،  یا حُسین مولا حسینؑ
یا حُسین یا حُسین،  یا حُسین یا حُسینؑ
یا حُسین ؑ ہائے حسین ؑ،  یا حُسین ہائے حسینؑ

کس طرح ٹھہرے سرِ شاہِ وفا نیزے پر
شام تک جائے گی زینبؑ کی ردا نیزے پر

راہ میں پوچھا سکینہؑ نے جو باباؑ ہیں کہاں
خون روتے ہوئے عابدؑ نے کہا نیزے پر

قبر جس چاند کی چُھپ چُھپ کے بناتے تھے حسینؑ
رات ہوتے ہی وہی چاند چڑھا نیزے پر

شدت پیاس ہے تنہا ہے غریب زھرا
آگ اُ گلتا ہوا سورج ہے سوا نیزے پر

خون عابد کی طرح روتے تھے مظلوم حسین
چُھو کے چادر کو جو آتی تھی ہوا نیزے پر

میں نے پردے میں اِسے پالا ہے بولیں زینبؑ
سر مجھے شمر نہ اکبرؑ کا دِکھا نیزے پر

شام تک بالی سکینہؑ نے طماچے کھائے
شام تک روتے رہے شاہِ ھُداؑ نیزے پر

بعد میں مجلس شبیر ہوئی زنداں میں
پہلے مجلس ہوئی چادر کی بپا نیزے پر

صرف اور صرف حُسینؑ ابنِ علیؑ جانتے ہیں
کیسے ہوتی ہے اسد حمدِ خدا نیزے پر