تو اگر ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا غازی ؑ 

غازی ؑ میرے غازی ؑ 

آئیں جب کرب و بلا لوٹ کے بنتِ زہرا ؐ 
قبرِ عباس ؑ پہ زینبؑ نے کیا یہ نوحہ 

تو اگر ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا غازی ؑ 
تیری شہ ذادی یوں در در نہ پھرائی جاتی 
تو اگر ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا غازی ؑ 

قبرِ عباس ؑ پہ زینبؑیہ صدا دیتی تھی 
تو اگر ہوتا تو ایسا نہیں ہوتا غازی ؑ

کبھی یثرب تو کبھی سوئے نجف دیکھتے تھے 
کبھی تیرے کٹے شانوں کی طرف دیکھتے تھے 
شہ ؑ نے اکبر ؑ کے کلیجے سے نکالی برچھی 

ہوگئی ثانیٔ زہرا ؐ بھی ضعیفہ عباسؑ
سانس لیتی ہوں مگر میں نہیں زندہ عباسؑ 
تیرے ٹکڑوں کی قسم تیری بہن ٹوٹ گئی 

پیاس میں بھی تجھے آواز دیئے جاتے تھے 
زیر خنجر بھی ترا نام لئے جاتے تھے 
گردنِ شاہ ؑ پہ جب سمر چلاتا تھا چھری 

میرے ہاتھوں کو بھی رسی سے گیا تھا باندھا 
میں بھی ہاتھوں کا نہ لے پائی سہارا بھیّا
جیسے تو زیں سے گرا ویسے میں ناقے سے گری 

قید خانہ بھی غریبی پہ میری روتا ہے
لاش مزدور اُٹھائیں یہ کہاں ہوتا ہے 
فرض بیٹوں کا نبھا آئی علیؑ کی بیٹی 

کیسے بتلاؤں وہ دربار کا منظر بھیّا
کھیلتا تھا سرِ سرورؑ سے ستمگر بھیّا
مارتا تھا میرے مظلوم ؑ کے ہونٹوں پہ چھڑی 

قبر میں چین سے معصوم ؑ کو سونے نہیں دیا
وہ ستم ڈھایا گیا کانپگئی کرب وبلا
لاش ڈھونڈی گئی نیزوں سے علی اصغرؑ کی 

لڑکھڑاتے تھے بہت پاؤں تو گر جاتے تھے 
ہو کہاں میرے جواں روکے یہ فرماتے تھے 
لاش ملتی نہ تھی بھیّا کو علی اکبرؑ کی 

میر سجادؔ یہ محسوس کرو گے تم بھی 
آتی ہے روضۂ غازیؑ پہ صدا سرورؑ کی 
آج بھی قید ہے زندانمیں بچی میری