ہائے علی اکبر ع ہائے علی اکبر ع اک شور ہے اک طرف ضعیفی ہے اک طرف جوانی ہے اک باپ نے پیٹے کی اب لاش اٹھانی ہے مولا مولا مولا مولا مولا زخمی ہے بہت اکبر مولا، مولا زخمی ہے بہت گیسئوں والا نہ اٹھے گا تنہا علی اکبر کا جنازہ نہ اٹھے گا ہائے عباس کو دریا سے بلالیجیئے مولا اکبر کے کلیجے میں سناں ٹوٹ گئ ہے یا شاہ زماں آپ سے بس عرض یہی ہے ہائے سینے سے نگاہوں کو ہٹا لیجیئے مولا گھر میں تو جواں لاش کو لے جانا پڑے گا اک اور علی آپ کی امدد کرے گا ہائے سجاد جو غش میں ہے جگا لیجیئے مولا سر پیٹتی خیمے سے نکل آئیں گی وہ بھی مرتا اسے دیکھے گی تو مرجائیں گی وہ بھی ہائے اس زخم کو زینب سے چھپا لیجیئے مولا وزنی ہے یہ لاشہ در خیبر سے زیادہ قوت یہاں درکار ہے حیدر سے زیادہ ہائے یا زہرا کہیں اور اٹھا لیجیئے مولا بیٹا یہ حسیں آپ کا زہرا کا گل تر ہوتا ہے جدا آپ سے ہمشکل پیمبر ہائے اک بار کلیجے سے لگا لیجیئے مولا عرفان و رضا ہے یہی اس دل کی تمنا منبر پہ حرم کے پڑھیں اکبر کا یہ نوحہ ہائے روضے پہ ہمیں پھر سے بلا لیجیئے مول